گزشتہ دنوں ایک انوکھا کیس میرے پاس آیا ‘میں تو سارا دن انوکھے کیس ہی سنتا ہوں‘لیکن یہ کیس کچھ مجھے اور انوکھا لگا‘ کیس کی نوعیت کچھ اس طرح تھی۔پریشانیاں‘ مصائب‘ مشکلات نے اسے آناً فاناً گھیرلیا‘ وہ دن رات سکون چین سے محروم ہوگیا اور سکون چین اس کا پتہ نہیں کہاں کوچ کرگیا‘ اس کا گھر ایک جھونپڑی سے بدتر‘ حالانکہ ایک بہت بڑابنگلہ اور کوٹھی تھی‘ اس کے درو دیوار اسے ڈراتے تھے‘ اس کی آنکھوں میں وحشت‘ اس کے
دل میں بےقراری‘ بے سکونی‘ اس کا جسم ہروقت بے چین رہتا تھا‘ بیٹھے بیٹھے ایک دم چیخنا شروع کردیتاکہ یہ دیکھو وہ بھاگا جارہا ہے‘ اور اس نے مجھے کاٹ لیا ہے اور جب وہاں سے کپڑا ہٹایا جاتا تو واقعی دانتوں کے اور خون کے رسنے کے نشانات موجود ہوتے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے کتے کاٹتے ہیں۔ کتےصرف اسے نظر آتے تھے اور کسی کو نظر نہیں آتے تھے ان کا بھاگنا ان کا آنا‘ ان کو تکلیف دینا‘ ان کا پریشان کرنا اسے نظر آتا تھا اور وہ ہر لمحہ اسی خوف میں رہتا تھا حتیٰ کہ سو نہیں سکتا تھا‘نیند کیا آتی آنکھ لگتے ہی ایک دم اس کی چیخ اور ہائے نکلتی کہ یہ دیکھو کتے نے مجھے کاٹا ہے اور وہ دیکھو اس کھڑکی سےجارہا‘ اس دروازے سے جارہا‘ اس روشن دان سے جارہا اور اس گھر کی نالی سے نکل کر دور چلا گیا۔ بعض اوقات کتے کے پیچھے دوڑنے اور اسے مارنے کی کوشش کرتا‘ ہاتھ میں جو چیز آتی اٹھا کر مارتا اس طرح گھر کی چیزیں ٹوٹنا شروع ہوگئیں‘ یہ سلسلہ ابھی چل ہی رہا تھا جس کیلئے کوئی عامل‘ کوئی ملنگ اور کوئی کالے پیلے جادو والا نہیں چھوڑا گیا۔ لیکن افسوس اصل مسئلے کی طرف اس کی توجہ نہیں گئی‘ لیکن اس کی دن رات کی اذیت ایسی تھی کہ اس کی ہائے ہائے اور شور شرابہ کی وجہ سے پڑوسی بھی پریشان تھے۔ کسی نے اس کی ماں کو کہا کہ اس کو نماز پڑھاؤ‘ بوڑھی ماں تھی اور مامتا کی محبت تھی‘ وہ اس کو اٹھاتی‘ وضو کراتی‘ دوائی کھلاتی اور نماز پڑھواتی لیکن حالات اور مزید بدسے بدتر ہوگئے‘ کیونکہ یہ نماز پڑھنا نہیں چاہتا تھا آج تک زندگی بھر اس نے عید کی نماز بھی شاید اس لیے نہیں پڑھی کہ یہ دیر سے اٹھتا تھا۔آخرچارماہ پہلے ماں بھی فوت ہوگئی۔ گھر اس نے بینک میں گروی رکھوایا ہوا تھا‘ اور وہ پیسہ لے کر اس نے اپنا کاروبار شروع کیا ایمان اعمال کی زندگی تھی نہیں‘ ذکر نماز کا ساتھ ویسے چھوٹا ہوا تھا مزید سود کی نحوست نے اسے اور گھیر لیا‘ ادھر اس کا اپنا کاروبار ہی مشکوک تھا جس میں بقول اس کے کہ ملاوٹ کے بغیر بچت اور گزارا نہیں حالانکہ ایک اور زرگر اسے ملا اور اس نے اس کو سمجھایا کہ میں نے توبہ کی ہے تو بھی توبہ کرلے بچت نہ کر‘ پھر بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ لیکن اسے بچت کچھ زیادہ چاہیے تھی۔ آخرکار گھر بک گیا‘ دکان بند ہوگئی‘ پھر اس نے کسی پرنٹنگ پریس میں نوکری کرنا شروع کردی‘ وہ مزدوری بھی آخرکار ختم ہوگئی۔پھر کچھ دنوں کے بعد اس کی ایک آنکھ ختم ہوگئی اب اس کیلئے آنکھوں کے معالج کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی اور آنکھوں کے معالج نے علاج معالجہ شروع کیا لیکن ابھی علاج ہوہی رہا تھا پھر دوسری آنکھ بھی ختم ہوگئی۔ حالانکہ سب ٹیسٹ بالکل درست ملتے تھے۔ لیکن یہ کیا؟ ڈاکٹر حیران! سرجن حیران! سیانے عقل مند حیران!۔ اب صورتحال یہ ہے اس کے گردے فیل ہوگئے ہیں‘ جگر ختم ہوگیا‘ اب صرف اس کے جگر کیلئے ایک کروڑ چاہیے۔ گھر بک گیا‘ زندگی میں سکون ختم ہوگیا‘ نسلیں ویران ہوگئیں‘ آنکھیں چلی گئیں‘ گردے ساتھ چھوڑگئے‘ جگر روٹھ گیا‘ رزق ختم ہوگیا‘ دوست رشتہ دار چھوڑ گئے‘ بیماریاں‘ دکھ‘ تکالیف‘ مشکلات‘ مصائب نے اس کو گھیرلیا۔ اس سب کی وجہ صرف تین چیزیں تھیں۔ یہ ہر بندہ کو اپنے ہر جملے میں کتا کہتا‘ اپنے رزق کو اس نے نہایت مشکوک کرلیا‘ کہ سونے میں ملاوٹ کی انتہا کرتا تھا اور مزید جلتی پر تیل کا کام بینک سے سود پر قرضہ لے لیا۔ قارئین! آپ حیران ہوں گے یہی کام اگر کوئی غیرمسلم کرے تو اس پر دنیا کے شاید وبال نہ آئیں اس کی ایک وجہ ہے کہ مسلمان کیلئے اللہ نے آخرت میں جنت کےنام پر اور اپنی رضا کے نام پرجو نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں وہ صرف مسلمان کیلئے ہیں کسی اور کے لیے نہیں اس لیے اللہ مسلمان کی یہ زندگی زیادہ ناپسند فرماتا ہے اور رب اس کو آزمائشوں میں ڈال دیتا ہے۔ میں نے‘ آپ نے تمام انسانیت نے ان تمام چیزوں سے بچنا ہے اس ساری بربادی کی بنیاد گالی تھی‘ اور پھر اس کے بعد بربادی کی ایک داستان چل نکلی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں